پیاسی امی جان

 


دوستو، میرا نام عادل ہے اور میں 23 سال کا ہوں۔ میرے گھر میں میرے علاوہ امّی، ابّو اور میری دو چھوٹی بہنیں ہیں۔

میرے ابّو نے کئی شادیاں کی ہیں۔ میری سگی امّی پہلے ہی مر چکی تھیں۔ اس وقت جو امّی میرے ساتھ رہ رہی ہیں، وہ میری نہیں، بلکہ میری دو چھوٹی بہنوں کی امّی ہیں۔لیکن ان کا رویہ مجھ سے ایک سوتیلی ماں جیسا کبھی بھی نہیں رہا۔انہوں نے مجھے اپنے سگے بیٹے کی طرح ہی پالا ہے ۔

اپنی دونوں بہنوں کی چوت کی سیل میں نے پہلے ہی توڑ دی تھی۔ میں مزے سے ان دونوں کے چھاتیوں کے ساتھ کھیلتا تھا۔ پچھلے سال ان دونوں کا نکاح ہو گیا اور اب وہ دونوں اپنے شوہروں کے لنڈ کی خدمت میں لگی ہوئی ہیں۔

میری امّی کا نام نغمہ (43) ہے۔ وہ بے حد خوبصورت بدن کی ملکہ ہیں، جن کے 36D کے گول اور تنے ہوئے بوبے کسی بھی لنڈ کو کھڑا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ تیس کی کمر ہے، جسے میں نے کئی بار خواب میں پکڑ کر انہیں چودا ہے۔

امّی کی 38 انچ کی اٹھی ہوئی گانڈ ہے، جو چلتے ہوئے اتنی مستی سے ہلتی ہے کہ بس دل کرتا ہے کہ ابھی کے ابھی سالی کی شلوار کھول کر گانڈ مار دوں۔

میرے ابّو کا نام ناصر ہے، وہ 51 سال کے ہیں۔ ابّو چھ سال پہلے عثمان چچا کے ساتھ ملتان   کام کے سلسلے میں گئے تھے  اور وہاں جا کر اپنے سے 20 سال چھوٹی عورت، 31 سال کی شبّو سے شادی کر لی۔اور وہاں ہی رہنے لگے ۔

شبّو ہلکی سی سانولی لیکن بے حد دلکش کٹاؤ والے بھرے ہوئے بدن والی عورت تھی۔ اسے دیکھ کر کئی بار میں نے سوچا کہ ایک بار تو کم از کم شبّو کے گلابی ہونٹوں سے اپنے لنڈ کی خدمت کروائی جائے۔

میں کئی بار اپنے باپ کی قسمت کے بارے میں سوچتا تھا کہ کیا قسمت ہے سالے کی۔۔نجانے کتنی خوبصورت عورتوں کو چود چکا ہے ۔۔اور اب  ایک طرف میری سوتیلی امّی نغمہ، جیسے کوئی  ملکہ حُسن ، تو دوسری طرف شبّو  جیسی سپر سیکسی ماڈل  کو اپنے لنڈ کی خدمت کے لیے سیٹ کیا ہوا ہے۔

اب ابّو کبھی کبھار ہی گھر آتے تھے اور گھر کا خرچہ بھیج دیتے تھے۔ ان کے گھر نہ آنے سے گھر پر کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ میں الیکٹرانکس کا بزنس کرتا ہوں ۔اور روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں ۔

ہمارا گھر  جو پرانے زمانے کے کھنڈر جیسا ہی ہے۔ ایک کے اوپر ایک گھر بالکل پیک، نہ کوئی آواز سن سکتا ہے اور نہ ہی کوئی گھر کے اندر جھانک سکتا ہے۔

مجھے کئی سال سے اپنی امّی کی جوانی چکھنے کا دل تھا، لیکن میری بہنوں نے کبھی مجھے چوت کی کمی نہیں ہونے دی۔ ان دونوں نے وقتاً فوقتاً میرے لنڈ کی خوب دیکھ بھال کی اور میں نے بھی ان کے سارے خرچے اور ضروریات پوری کیں۔

بہنوں کی شادی کے کچھ دن بعد ہی مجھے چدائی کی شدید طلب لگی تو سامنے امّی تھیں۔ میرا پرانا خواب پھر سے جوان ہو گیا اور میں نے سوچا کیوں نہ انہیں ہی اپنے بستر پر کھینچ لوں۔ ویسے بھی امّی کئی سال سے نہیں چدی تھیں تو چوت ٹائٹ ہو گی… اور سالی کا فگر تو کمال ہے ہی۔

اپنی امّی کے بارے میں اس طرح کی سوچ کوئی مادرچود ہی رکھ سکتا ہے، جو کہ میں تبھی بن گیا تھا جب امّی کو دور کے ماموں کے آگے گھوڑی بنتے دیکھا تھا۔

خیر، یہ بات 8 سال پرانی ہے، لیکن یاد اب تک تازہ ہے کہ کیسے ماموں میری امّی کو للی پر بٹھا کر اچھالنے کی کوشش کر رہا تھا اور امّی کہہ رہی تھیں کہ سالے، تو بھی ناصر کی طرح 4 انچ کا ڈھیلا ہتھیار لے کر آ گیا ہے۔ پتا نہیں کب میری چوت کو موٹے اور لمبے لنڈ ملیں گے۔

امّی کی خواہش سن کر اب تو بس چاہت تھی کہ امّی کو اپنے 8 انچ کے لنڈ کا ذائقہ چکھایا جائے اور اس کی چوت کا رس پیا جائے۔

امّی کو لنڈ پر بٹھا کر گندی گندی گالیاں دیتے ہوئے اچھالنے کی، میرے لنڈ سے چدتے وقت امّی کے چہرے پر کارمک تاثرات دیکھنے کی، جس کے لیے میں روز کچھ نہ کچھ نیا طریقہ اپناتا۔

اب میں روز امّی کی برا اور پینٹی پر امّی کو یاد کر کے مٹھ مار کر مال نکالتا اور امّی کو گلے لگاتا یا ان کے گال چومتا تو پورا ٹھرک سے کام لیتا۔

پہلے تو امّی نے ان سب چیزوں کو نظر انداز کیا اور کھل کر مجھ سے گلے لگ کر چوم لیتی تھیں۔ لیکن جب میں حد سے زیادہ آگے جا کر اس کے بوبوں اور گانڈ پر ہاتھ لگا کر یہ سب کرتا، تو امّی کہتیں کہ اب تیرا بھی نکاح کرنا پڑے گا۔ اور مسکرا کر چلی جاتیں۔

امّی کی ان باتوں سے میری ہمت اور زیادہ بڑھ گئی۔ میں امّی کے سامنے جاتا تو لنڈ کھڑا کر کے ہی جاتا اور ڈبل میننگ باتیں کرتا۔

جیسے، امّی، آج تو دے دو… امّی کہتیں، کیا؟ تو کہتا، چوت… او، سوری سوری، دودھ۔ یا امّی کے بوبس دیکھتے ہوئے کہتا، آج تمہارے بہت موٹے لگ رہے ہیں۔

امّی بولتیں، شرم نہیں ہے کیا؟ تو کہتا، امّی، میں تو آپ کے ہونٹوں کی بات کر رہا تھا۔

یہی سب کچھ دنوں تک چلتا رہا۔ پھر میں نے امّی کی جتنی بھی برا اور پینٹی تھیں، ایک بیگ میں بھر کر پھینک دیں۔

امّی کو جب برا اور پینٹی نہیں ملیں، تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تو نے میری برا پینٹی دیکھی ہیں کیا؟ میں نے امّی سے کہا، نہیں تو۔امی بولیں نجانے کہاں میری برا پینٹیاں غائب ہوگئیں ۔۔ میں نے کہا  امّی، آپ کی چھاتیاں اتنی خوبصورت ہیں  ۔ تمہاری چھاتی بغیر برا کے کتنی خوبصورت دکھتی ہے۔ تم آج سے برا مت پہنا کرو۔

امّی نے کہا، سالے سؤر… چپ کر ورنہ تھپڑ کھائے گا۔ میں نے بھی جواب دے دیا، امّی، تمہارے تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا، جب تمہاری چھاتی کے خربوزے ہلتے ہیں تب ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ بم مجھ پر گریں، تو میں مر نہ جاؤں۔

امّی اپنا دوپٹہ چھاتی پر لے کر یہ کہتی ہوئی اندر چلی گئیں کہ آنے دے تیرے ابّو کو واپس… بتاتی ہوں کہ تو کتنا بے شرم ہو گیا ہے۔ اگر تیری کھال نہیں کھنچوائی تو کہنا۔ اپنی امّی کو چھیڑتا ہے کمینہ۔

میں نے جواب میں کہا کہ ابّو تو شبّو کو گھوڑی بنا کر اس کی سواری کرتے ہوئے بال کھینچنے میں مصروف ہوں گے۔

امّی نے میری اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میرے اس بدلے ہوئے رویے سے امّی حیران بھی تھیں اور پریشان بھی۔

امّی میں ویسے تو ہوس کی کوئی کمی نہیں تھی،کسی  اور کی بات ہوتی تو وہ خود ہی چٹائی کی طرح بچھ جاتیں اور کہتیں، لگا دے لنڈ، بنا لے اپنی رنڈ… لیکن اپنے ہی بیٹے سے چدوائیں کیسے، شاید یہی بات انہیں پریشان کر رہی تھی۔

تھوڑی دیر بعد میں امّی کے پاس آیا اور امّی کا نام لے کر بولا، نغمہ، تم میری بات کا برا مت مانو… میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں اور خوش دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ رات کو تم باتھ روم میں اتنی دیر کیوں رہتی ہو؟ تو اگر چاہے تو ہم دونوں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔

یہ کہتے ہوئے میں نے امّی کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھ سے پکڑ لیا۔ امّی نے اپنے ہاتھ سے میرے گال کو چھوا اور بولیں، بیٹا، تو ابھی اتنا بڑا نہیں ہوا کہ یہ سب بات سمجھ سکے۔

میں نے امّی کی کمر پکڑ کر امّی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا، نغمہ، میں اور میرا ہتھیار اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ بستر پر رات بھر تیری چیخیں نکلوا سکے۔

یہ سنتے ہی امّی نے تھپڑ مارنا چاہا، لیکن میں نے ہاتھ پکڑ کر ان کے بال پکڑے اور امّی کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔ میرے دل کی دھڑکن اتنی بڑھ گئی کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔

کچھ دیر بعد امّی کے ہونٹوں کو ہلکا سا کاٹتے ہوئے چھوڑا تو امّی کی لپ اسٹک میرے ہونٹوں پر بھی لگ گئی تھی۔ امّی نے کہا، بیٹا، امّی ہوں تیری… یہ سب میرے ساتھ کرے گا… تو کہے تو تیرے لیے تیری ممانی بیٹی  حنا کو بلا لیتی ہوں۔ وہ اپنی جوانی کی دہلیز پر ہے ابھی، تیرا پورا خیال رکھے گی۔

میں نے امّی کی شلوار میں ہاتھ ڈال کر ایک انگلی چوت میں ڈال دی اور ہلانے لگا۔ میں بولا، نغمہ، تیری جوانی پر حنا جیسی کئی کلیاں قربان کر دوں گا میں… جان، آج منع مت کرنا… تو نے مرد پیدا کیا ہے، اب اپنے بیٹے  مرد کی مردانگی دیکھ بس۔

امّی: آہ، اوہ، ہہ… مادرچود… امّی ہوں تیری۔

میں نے امّی کے کپڑے اتارتے ہوئے کہا، نغمہ، آج سے تو میری امّی نہیں، بیگم ہے، سمجھی سالی چھنال۔

امّی: آہ… عادل… میں تیری امّی ہوں… کوئی اپنی امّی کے ساتھ ایسا نہیں کرتا۔

میں: نغمہ جان، جب بھائی کے ساتھ کر سکتی ہو تو بیٹے کے ساتھ کیوں نہیں؟ کوئی غلط بات نہیں ہے اس میں میری جان… دیکھو تم کتنی مست بدن والی ہو اور میرے پاس کتنا مست لنڈ ہے۔

میں نے اپنا 8 انچ کا لنڈ باہر نکالتے ہوئے امّی کو دکھایا اور کہا، کیوں نہ اب سے ہم دونوں ایک دوسرے کے بدن کا بھی خیال رکھیں؟

امّی میرے لنڈ کو دیکھتی ہوئی بولیں، ہائے … عادل، تجھے ذرا بھی شرم و حیاء نہیں رہ گئی… میرے سامنے لنڈ نکال کے کھڑا ہو گیا؟ ویسے تیرا لنڈ بہت بڑا ہے۔ مزا خوب دے گا۔

میں: نغمہ، آج تو تیری چوت سے نکلے اس مرد کے لنڈ میں آگ لگ چکی ہے۔ آج تو تجھے مجھ سے چدنا ہی پڑے گا۔

میں نے امّی کو دونوں ہاتھوں سے اٹھایا اور اسی بستر پر لے جا کر پٹک دیا، جہاں ابّو اور امّی سوتے تھے۔

امّی: بیٹا، میں تیری امّی ہوں!

میں: نغمہ، دیکھ اب اتنا ڈرامہ مت کر، میں جانتا ہوں تو کتنی پیاسی ہے۔ آج تیری ساری پیاس بجھا دوں گا، بس یہ فضول کی باتیں کرنے کی بجائے کچھ موڈ بنا جان۔

میں امّی کی چوت کو پھیلا کر سیدھا بغیر کچھ کہے اس کی چوت چاٹنے لگا اور زور زور سے امّی کی چوت کو چوس کر گیلی کرنے میں لگ گیا۔امی زور زور سے مزے سے چلا رہی تھیں ۔۔میرا سر  اپنی پھدی پر دبا رہی تھیں ۔۔

کچھ دیر بعد امّی کی چوت سے پانی نکل گیا، تو میں نے امّی سے پوچھا، امّی، کچھ مزا آیا؟

امّی: اومم… آہ… عادل، آہ بیٹا… آہ

امّی کی چوت گیلی ہونے پر میں نے بغیر تھوک لگائے ہی اپنا 8 انچ کا لنڈ امّی کی چوت کے منہ پر سیٹ کیا اور ایک زور کا جھٹکا دیتے ہوئے کہا، لو یو امّی جان۔

امّی کی چوت میں آج تک 4-5 انچ کی للی ہی گئی تھی اور اتنی سالوں سے وہ چدی بھی نہیں تھیں، میرا 8 انچ کا موٹا لمبا لنڈ کیسے سہن کر پاتیں؟

میرے لنڈ کا آدھا اندر جاتے ہی وہ کراہ اٹھیں، ہائے  امی ، مر گئی!

امّی کے منہ سے ایسی مدہوش آواز سے لنڈ میں اکڑن اور بدن کی جکڑن دونوں اور بڑھ گئی۔ امّی کی چوت سے ہلکا سا خون بھی نکلا، جو الگ نشہ دے رہا تھا۔

اتنا مزا بہنوں کی چدائی میں بھی کبھی نہیں آیا، جتنا آج اپنی ماں چودنے میں آ رہا تھا۔

میں بغیر رکے جھٹکے دینے لگا اور اس کی چھاتیوں سے پیاسے کی طرح دودھ پینے لگا۔ امّی اب مدہوش ہو چکی تھیں اور مجھے کسی بھی طرح کی کوئی حرکت کرنے سے منع نہیں کر رہی تھیں، بلکہ اب تو صرف سسکاریاں ہی بھر رہی تھیں۔

میں لگاتار امّی کی چوت کا رس نکالنے میں لگا ہوا تھا۔

چوت کے چدتے چدتے امّی کی شرم کھلنے لگی تھی۔ وہ بھی اپنے ہاتھوں سے میری پیٹھ کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ رہی تھیں اور ‘آہ… اوففف… ہائے… امم…’ جیسی آوازیں نکالتی ہوئی مجھے اپنی طرف سمیٹ رہی تھیں۔

میں: نغمہ، میری بیگم… سہاگ رات مبارک ہو۔

امّی اپنی آدھی کھلی ہوئی آنکھوں سے دیکھتی ہوئی بولیں، آہ… عادل… اندر مت جھاڑنا بیٹا… میرا آپریشن نہیں ہوا ہے۔

امّی سے ایسی بات سن کر میرے اندر کا وحشی اور ہوس سے بھر گیا۔ میں نے لنڈ نکال کر سیدھا امّی کے منہ میں ڈال دیا اور رس جھاڑ دیا۔ آہ… کیا مزیدار لمحہ تھا وہ… جب میں نے اپنی امّی کو لنڈ کے نیچے لے کر چود ڈالا تھا۔

اس رات میں نے کنڈوم لا کر ماں کے ساتھ رات بھر 4 بار چودا  اور اس کی گانڈ کے چھید کی سیل بھی توڑ ڈالی۔

پچھلے ایک سال میں میں نے امّی کی ساری شرم اتار دی۔ اب وہ کسی گرل فرینڈ کی طرح ہی میرے ساتھ رہتی ہیں۔

اس رات کے بعد امّی نے کبھی مجھے میرے نام عادل سے نہیں بلایا، بلکہ سنو، جان، جانو، بے بی ، بابو، ہنی، راجہ جیسے لفظوں سے آواز دینے لگیں اور میرے لنڈ کی ضرورت کا خیال میری بہنوں سے بھی زیادہ اچھے سے رکھنے لگیں۔

دوستو، آپ کو ماں چدائی کی کہانی کیسی لگی؟

 

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی